Wednesday 27 July 2016

Doranay Hamal Talaq Dena


دوران حمل طلاق دینا
میری دو سال قبل شادی ہوئی تھی، گھر میں معمولی نا چاقی کی وجہ سے مرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی جبکہ میں اس وقت امید سے تھی، کیا ایسے حالات میں طلاق ہو جاتی ہے؟ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ دوران حمل دی ہوئی طلاق نہیں ہوتی۔ وضاحت فرمائیں۔
ہمارے معاشرہ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق شمار نہیں ہوتی حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حاملہ عورتوں کی عدت و ضع حمل بیان کی ہے اور عدت، طلاق کے بعد ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ (الطلاق:۴)
یہ آیت کریمہ اس امر کی واضح ولیل ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق و اقع ہو جاتی ہے اور عدت کے اعتبار سے یہ طلاق زیادہ وسیع ہے، لہذا حاملہ عورت کو طلاق دینا جائز ہے اور اس دوران دی گئی طلاق مؤثر ہو جاتی ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عمرؓ سے فرمایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے کہہ دیں:’’دوران حیض دی گئی طلاق سے رجوع کرے پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔‘‘(مسلم:الطلاق:۱۴۷۱)
واضح رہے کہ سیدنا ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو دوران حیض طلاق دی تھی، جس کی شکایت سیدنا عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کی تھی، اس وقت آپ ﷺ نے یہ حکم دیا۔ 
بہرحال دوران حمل دی گئی طلاق مؤثر ہو جاتی ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ اگلے دن ہوجائے یا چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو۔ واضع حمل ہوتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد اگر پہلی یا دوسری طلاق ہے تو تجدید نکاح سے گھر آباد کیا جا سکتا ہے۔ بشر طیکہ لڑکی راضی ہو اور سر پرست بھی اجازت دے نیز حق مہر بھی نیا ہوگا۔ اس کے علاوہ گواہ گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
صورت مسؤلہ میں خاوند نے اپنی بیوی کو دوران حمل طلاق دی ہے ، اس طرح دی ہوئی طلاق ہو جاتی ہے۔ البتہ اس کی عدت وضع حمل ہے، وضع حمل سے پہلے پہلے خاوند کو رجوع کرنے کا پورا پورا حق ہے، وضع حمل کے بعد بھی رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن یہ تجدید نکاح سے ممکن ہوگا۔(واللہ اعلم!)